تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی । ہم گیارہوں دن کی دعا میں پڑھتے ہیں
’اَللّهُمَّ حَبِّبْ اِلَیَّ فیهِ الْاِحْسانَ وَکَرِّهْ اِلَیَّ فیهِ الْفُسُوقَ وَالْعِصْیانَ وَحَرِّمْ عَلَیَّ فیهِ السَّخَطَ وَالنّیرانَ بِعَوْنِکَ یا غِیاثَ الْمُسْتَغیثینَ‘‘
خدایا! اس مہینے میں نیکی اور احسان کو میرے لئے پسندیدہ قرار دے اور برائیوں اور نافرمانیوں کو میرے لئے ناپسند قرار دے، اور اپنی ناراضگی اور بھڑکتی ہوئی آگ کو مجھ پر حرام فرما اپنی مدد سے، اے فریادیوں کے فریاد رس۔
’’اَللّهُمَّ حَبِّبْ اِلَیَّ فیهِ الْاِحْسانَ‘‘ خدایا! اس مہینے میں نیکی اور احسان کو میرے لئے پسندیدہ قرار دے۔
احسان یعنی دوسروں کو فائدہ پہنچانا اور احسان کرنے والے کو محسن کہتے ہیں۔ عدل اور احسان میں فرق یہ ہے کہ عدل میں انسان بغیر کسی کمی اور زیادتی کے دوسرے کا حق دیتا ہے اور اپنا حق لیتا ہے۔ جب کہ احسان میں حق سے زیادہ عطا کرنا اور اپنے حق سے کم دریافت کرتا ہے۔ جیسا کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: ’’اَلْعَدْلُ الاِْنْصافُ وَ الاِْحْسانُ التَّفَضُّلُ‘‘ عدل انصاف (برابری) ہے اور احسان فضل(حق سے زیادہ عطا کرنا)ہے۔ (وسایل الشیعه، ج ۸، ص ۳۱۸)
یہاں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے جسکی جانب بزرگان دین نے ہمیں متوجہ کیا ہے کہ ہم قیامت میں اللہ سے اس کے عدل کے طالب نہ ہوں بلکہ اس کے فضل کو طلب کریں ۔ کیوں کہ ہمارے اعمال جتنے بھی اچھے کیوں نہ ہوں لیکن اس کی عطا کے مقابلے میں ہیچ ہیں۔ اس لئے ہمیں یہی دعا کرنی چاہئیے کہ خدایا! اپنے عدل سے نہیں بلکہ اپنے فضل سے ہمارا فیصلہ کرنا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ایک اسم ’’محسن ‘‘ ہے کیوں کہ اس کا احسان تمام مخلوقات کے شامل حال ہے۔ روایات میں ہے کہ اللہ نے خود کو احسان بھی کہا ہے اور محسن بھی کہا ہے۔ حدیث قدسی ہے کہ جب اللہ نے جناب آدم علیہ السلام کے پیکر میں روح پھونکی تو انہوں نے پنجتن پاک کے سلسلہ میں سوال کیا تو جب امامین حسنین کریمین علیہماالسلام کا تعارف کرایا تو فرمایا: ’’وَ أَنَا اَلْإِحْسَانُ وَ هَذَا حَسَنٌ ، وَ أَنَا اَلْمُحْسِنُ وَ هَذَا اَلْحُسَيْنُ ‘‘ اور میں احسان ہوں اور یہ (امام)حسنؑ ہیں ، اور میں محسن ہو اور یہ (امام) حسینؑ ہیں۔ (شرح الأخبار في فضائل الأئمة الأطهار، جلد ۲۔ صفحہ ۵۰۰ )
احسان مطلق اور محسن کامل فقط پروردگار ہے لیکن یہ اس کا لطف و کرم ہے کہ اگر کوئی بندہ نیک کام کرتا ہے تواسے بھی اس نے محسن کے نام سے یاد کیاہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہو رہا ہے کہ ’’وَأَنفِقُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَلاَ تُلْقُواْ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوَاْ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ‘‘ راہ خدا میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں سے خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو ۔ اور نیکی کرو۔ بے شک اللہ نیکی (احسان) کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (سورہ بقرہ۔ آیت ۱۹۵)
اسی طرح دوسرے مقام پر ارشاد ہو رہا ہے۔ ’’وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ‘‘ اور جو لوگ ہماری خاطر جدوجہد کرتے ہیں ہم ان کو ضرور اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے اور بے شک اللہ محسنین کے ساتھ ہے۔ (سورہ عنکبوت، آیت۶۹)
چونکہ احسان کا دائرہ وسیع ہے لہذا اس کے مظاہر بھی مختلف ہیں ۔ ذیل میں چند مظاہر کی جانب اشارہ مقصود ہے۔
۱۔ ایمان و اطاعت خدا۔ خوبصورت ترین احسان اپنے محسن پروردگار پر ایمان اور اس کی اطاعت محض ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: ’’مَنْ سَرَّهُ اَنْ یَبْلُغَ اِلی نَفْسِهِ فِی الاِْحْسانِ فَلْیُطِعِ اللّهَ‘‘ جو شخص اس بات پر خوش ہے کہ اس تک احسان پہنچے تو اسے چاہئیے کہ اللہ کی اطاعت کرے۔ (فروع کافی، ج ۸، ص ۱۱)
اسی طرح دوسری روایت میں راوی کا بیان ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا کہ جب کوئی بندہ کوئی حسنہ (نیک کام) انجام دیتا ہے تو اللہ اسے اس کے سات سو گنا زیادہ عطا کرتا ہے۔ راوی نے پوچھا مولاؑ احسان کیا ہے؟ امامؑ نے فرمایا: نماز کو ادا کرو، رکوع و سجود کو بطور کامل انجام دو اور جب روزہ رکھو تو ہر اس برائی سے دور رہو جو روزہ کو باطل کرتی ہے۔ اپنے کاموں کو گندگی سےپاک رکھو۔ (تفسیر نورالثقلین، ج ۱، ص ۱۸۱)
۲۔ جہاد۔ بیرونی دشمن سے جہاد ، جہاد اصغر ہے اور اندرونی دشمن سے جہاد ، جہاد اکبر ہے۔ جہاد چاہے اصغر ہو یا اکبر یہ بھی احسان کے مظاہر میں سے ایک ہے۔ جیسا کہ اس قبل آیت میں بیان ہو چکا ہے۔ ’’وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ‘‘ اور جو لوگ ہماری خاطر جدوجہد کرتے ہیں ہم ان کو ضرور اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے اور بے شک اللہ محسنین کے ساتھ ہے۔ (سورہ عنکبوت، آیت۶۹)
۳۔ والدین کی خدمت۔ یہ بھی احسان کے مظاہر میں سے ایک مظہر ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہو رہا ہے۔ ’’وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا‘‘ اور تمہارے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔ (سورہ اسراء، آیت ۲۳)
۴۔ زیر نظر لوگوں پر احسان ۔ زیر نظر افراد کا خیال بھی مظہر احسان ہے۔ یونس بن عمار کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے فرزند اسماعیل کی کنیز سے میری شادی کرا دی اور حکم دیا کہ اس کے ساتھ احسان کرو۔ میں عرض کیا کہ مولا ! میں اس کے ساتھ کیسے احسان کروں؟ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: اس کے شکم کو سیر کرو، اس کے بدن کو چھپاؤ اور اس کی غلطیاں درگذر کرو۔ (فروع کافی، ج ۵، ص ۵۱۱)
امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: ’’اِطْعامُ الاَْسیرِ وَ الاِْحْسانُ اِلَیْهِ حَقُّ واجِبٌ وَ اِنْ قَتَلْتَهُ مِنَ الْغَدِ‘‘ اسیر کو کھانا کھلانا اور اس کے ساتھ احسان کرنا ایسا حق ہے جسکی ادائیگی واجب ہے چاہے اسے دوسرے دن قتل ہی کیوں نہ کر دو۔ (وسایل الشیعہ، ج ۱۱، ص ۶۹)
۵۔ کار خیر ۔ ہر وہ کام جو لوگوں کی سہولت کے لئے انجام دیا جائے۔ سڑک ، پل بنوانا، اسپتال ، اسکول کھلوانا وغیرہ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں کے راستے سے کانٹا ہٹا دینے کے سبب بندہ جنت میں چلاجاتا ہے۔ (بحارالانوار، ج ۷۵، ص ۴۹)
لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کہ احسان کے کچھ شرائط ہیں ۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: نیک کام کامل نہیں ہوتا مگر تین شرطوں سے ۔ اسے چھوٹا سمجھنا، جلدی کرنا اور چھپا کر کرنا۔ (شرح غررالحکم، ج ۲، ص ۱۴۷)
جو کسی کے ساتھ احسان کرتا ہے احادیث کی روشنی میں اسکی عمر طولانی ہوتی ہے، اس کے احباب زیادہ ہوں گے، اسکی عاقبت بخیر ہوگی، حیات جاوید اس کا مقدر ہوگی اور بہترین زاد آخرت اس کا نصیب ہو گا۔
جہاں احسان کے اتنے فوائد ہیں وہیں کچھ چیزیں اسکے لئے آفت ہیں۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: ’’اَلْمَنُّ یُفْسِدُ الاِْحْسانَ ‘‘ احسان جتانے سےاحسان اور نیکی فاسد ہو جاتی ہے۔ (شرح غررالحکم، ج ۱، ص ۱۹۹) آپؑ ہی نے فرمایا: ’’مَنْ مَنَّ بِاِحْسانِهِ کَاَنَّهُ لَمْ یُحْسِن‘‘ جس نے احسان جتانے کے لئے احسان کیا گویا اس نے احسان نہیں کیا۔ (شرح غررالحکم، ج ۵، ص ۴۵۷)
’’وَکَرِّهْ اِلَیَّ فیهِ الْفُسُوقَ وَالْعِصْیانَ‘‘ (خدایا) اس ماہ میں فسق و گناہ سے مجھے کراہت ہو جائے۔
کیا گناہ سے کراہت ہو جانا ممکن ہے؟ ہاں اگر انسان گناہ کی حقیقت سے واقف ہو جائے تو اسے اس سے نفرت ہو جائے گی۔ معصومین علیہم السلام واقف تھے لہذا دور تھے۔
جب تک انسان کو گناہ سے نفرت نہیں ہوگی تب تک وہ اللہ کی اطاعت نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ جس دل میں گناہ کی آندھیاں چل رہی ہوں گی وہاں بندگی کا چراغ روشن نہیں ہو سکتا۔
’’وَحَرِّمْ عَلَیَّ فیهِ السَّخَطَ وَالنّیرانَ‘‘ (خدایا) اس ماہ میں اپنے قہر و عذاب کو مجھ پر حرام کر دے۔
جہنم ایسی بری جگہ ہے جہاں ہر لمحہ مشکلات و پریشانی میں اضافہ ہی ہوگا۔ جس کا اندازہ ہر انسان کے بس کی بات نہیں۔ لہذا بندے اپنے رب سے دعا کرے کہ اسے جہنم سے دور رکھے اور اہل جہنم کے کاموں سے بھی دور رکھے۔ اور یہ ایمان، اخلاص، عمل صالح کے بغیر ممکن نہیں۔مشہور روایت جسے عامہ و خاصہ دونوں نے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: خدا نے مجھے وحی کی کہ اگر تمام اہل زمین علی (علیہ السلام )کی امامت کا اقرار کر لیتے تو میں جہنم کو خلق نہ کرتا۔ (امالی شیخ صدوق، صفحہ 657) اسی مفہوم کی روایت عامہ سے بھی نقل ہے۔ لہذا ہمیں دعا کرنی چاہیئے
’’بِعَوْنِکَ یا غِیاثَ الْمُسْتَغیثینَ‘‘
اپنی مدد سے ائے فریادیوں کے فریاد رس۔ (میری دعا قبول فرما)